Orhan

Add To collaction

موسم موحببت اور تم

" رضیہ توں تاں لٹی گئی ایں۔۔۔۔" رضیہ کے سامنے مارکس اماں کے بناۓ گئے گول لڈوؤں کی طرح گھومنے لگے تھے۔۔۔۔

پروین عرف پینو بھنگڑا ڈال رہی تھی۔۔۔ خوش قسمتی سے وہ پاس ہو گئی تھی۔۔۔ ردابہ درانی نے ایک پیپر میں فیل ہونے کا غم نزاکت سے ٹشو پیپر میں جذب کر دیا تھا۔۔۔۔ عقیدت کو حرا نے جا لیا تھا۔۔۔۔

" اتنی دیر کر دی آنے میں۔۔۔۔میں تو فاتحہ پڑھنے لگی تھی۔۔۔" حرا نے ہاتھ میں پکڑی فائل اسے رسید کر دی تھی۔۔۔

" میں تو جلد آ رہی تھی۔۔۔ بس وہ راستے میں بائیک خراب ہو گئی تھی۔۔۔"

" اور شہزادہ سلیم کہاں ہیں۔۔۔؟" حرا نے پوچھا تھا۔

" وہ بائیک کو ورکشاپ میں لے گیا ہے۔۔۔"

" اوہ۔۔۔ چلو پھر کینٹین۔۔۔ اور ٹریٹ دو۔۔۔ پوری کلاس منتظر ہے۔۔۔" وہ الجھی ہوئی نظر آ رہی تھی۔

" میں ٹریٹ دوں۔۔۔ مگر کیوں؟" حرا نے اس کی الجھن کو بغور دیکھا اور زور سے گلے لگا لیا۔۔۔

" پاگل۔۔۔ تمہاری فرسٹ پوزیشن آئی ہے ۔۔۔" عقیدت نے بے ساختہ منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی۔۔۔ آنکھوں میں جگنو چمک اٹھے تھے ۔۔۔ راتوں کی ریاضت رنگ لے آئی تھی۔ وہ ساری ساری رات چہل قدمی کرتی ہوئی پڑھتی رہتی تھی جبکہ شہریار بنچ پر بیٹھا اپنا کام کرتا رہتا تھا ۔۔۔ وہ بغور اسے دیکھتا ہنستا تھا۔

" رٹے لگانے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔۔۔۔" وہ بھڑک جاتی۔۔۔

" شہریار اکرام میں تو محنت کرتی ہوں ۔۔۔" وہ لیپ ٹاپ گود میں رکھے بیٹھا ہوتا تھا۔

" چلو جب رزلٹ آۓ تو پہلے مجھے بتانا ۔۔۔" وہ بلب کے نزدیک کھڑی ہوتی تھی تو اس کے قریب آ جاتی تھی۔۔۔۔

" کامیاب ہوئی تو کیا دو گے؟" یونانی دیوتا کی سنہری آنکھیں جگمگ کرنے لگتی تھیں۔۔۔

" جو تم مانگو گی وہی دوں گا۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی تو وہاں سنجیدگی کی چھاپ نظر آتی تھی۔۔۔۔

روڈ کے کنارے لگے نیون سائن چمک رہے تھے ۔۔۔ ٹریفک کی آمد و رفت نہایت کم تھی ۔۔۔ پیدل چلنے والوں کی تعداد کثرت میں تھی جو روزانہ ہوا خوری کے لیے گھروں سے نکلتے تھے۔۔۔ وہ دونوں اہستہ اہستہ ٹہل رہے تھے۔۔۔ دونوں کے ہاتھوں میں پاپ کارن تھے ۔۔۔۔ شہریار نے اسے بغور دیکھا تھا۔

" انسان کی سب سے قیمتی چیز کیا ہوتی ہے؟"

عقیدت نے پلٹ کر سوال کے اوپر سوال داغ دیا تھا ۔۔۔ ایک پاپ کارن شہریار کے ہاتھوں سے چھوٹ کر ہواؤں میں اڑ گیا تھا۔

" میرے خیال میں انسان کا دل اس کی سب سے قیمتی چیز ہوتی ہے۔۔۔۔" عقیدت نے روڈ کنارے بنے بنچ کی طرف اشارا کیا تو وہ دونوں وہیں بیٹھ گئے تھے۔۔۔۔ صندلی خوشبو میں رچی ہوئی آوارہ گھوم رہی تھی ۔۔۔۔ ارد گرد لگی روشنیوں کو عقیدت نے جیسے کم ہوتا محسوس کیا تھا۔۔۔

   1
2 Comments

Farhana ۔۔۔

14-Dec-2021 02:32 PM

Goid

Reply

Khan sss

29-Nov-2021 10:52 AM

Good

Reply